Tuesday, October 12, 2010

mosam

Monday, September 27, 2010

Sehar Ik Istara Hai

 
عمیرہ احمد کا ناول سحر اک استعارہ ہے پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنےکیلیے اس لنک پر جائیں

Abdullah

 
اردو کا مشہور ناول عبداللہ پڑھنے اور ڈاون لوڈ کرنے کیلیے اس لنک پر جائیں

Woh aik bat

رفعت سراج کا ناول وہ ایک بات پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنےکیلیے اس لنک پر جائیں

Teri Yaad Khaar e Gulab Hai

عمیرہ احمد کا ناول تیری یاد خار گلاب ہے پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنےکیلیے اس لنک پر جائیں

Sunday, September 26, 2010

Aao wada kren

آؤ وعدہ کریں
ہاتھ تھامیں گے ہم
آؤ وعدہ کریں
سر اٹھائیں گے ہم
بجھ گئے جو دیے وہ جلائیں گے ہم
جو بھی اجڑے ہیں گھر وہ بسائیں گے ہم
جتنے وعدے کیے ہیں نبھائیں گے ہم
آؤ ترتیب دیں اک نئی کہکشاں
بھر دیں خوشیوں سے اپنا یہ سارا جہاں
جگمگاتی ہے امید کی روشنی
ہے فروزاں نئی صبح کی چاشنی
کھلتی کلیاں بھی اب مسکرانے کو ہیں
ظلمتوں کے یہ دن آج جانے کو ہیں
آزما ئش اگر ہے یہ تقدیر کی
دل میں اپنے بھی جرات ہے تعمیر کی
موجزن قوم کا درد سینے میں ہے
زندگی کا مزا ایسے جینے میں ہے
ہم میں ہے حوصلہ ہم میں ہمت بھی ہے
زور بازو میں اپنے وہ قوت بھی ہے
ڈوبتی کشتیوں کا سہارا بنیں
دردمندوں کے ہر غم کا چارہ بنیں
وہ ہمارے ہیں بڑھ کر سنبھالیں انہیں
کر کے ان کی مدد ہم بچا لیں انہیں
سر زمیں وطن کے سبھی باسیو!
آؤ تعمیر نو کا ارادہ کریں
آئیے! اپنا خون جگر دے کے ہم
قصر ملت کو پھر ایستادہ کریں
آؤ وعدہ کریں

Raston ki chahat

دشت کی سیاحی سے
یہ سبق تو سیکھا ہے
ہمتیں مسافر کی
راہبر تو ہوتی ہیں
سردیوں کے موسم کی
دھوپ کی طرح، اس کا
حوصلہ بڑھاتی ہیں
مسافروں کی ہمت بھی
ہے بہت ضروری پر
منزلوں کے ملنے کا
راستوں کی چاہت پر
انحصار ہوتا ہے
راستے اگر چاہیں
منزلوں کو پانے میں
دیر ہی نہیں لگتی

Saturday, September 25, 2010

ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے
گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے سے چھین لے

گر احترام رسمِ وفا ہے تو اے خدا
یہ احترامِ رسمِ کہن مجھ سے چھین لے

منظر دل و نگاہ کے جب ہو گئے اداس
یہ بے فضا علاقۂ تن مجھ سے چھین لے

گل ریز میری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ
گل چیں کا بس چلے تو یہ فن مجھ سے چھین لے

سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے یہ کیاریاں
کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے!
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور ِبہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاوں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی

یہاں اک شہر تھا شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی

میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی

تصور نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی

خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی

ہجومِ نشّۂ فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

بتا اے ظلمتِ صحرائے امکاں
کہاں ہوگا مرے خوابوں‌کا ثانی

اندھیری شام کے پردوں میں‌ چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی

کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جائے ہیں اوراقِ خزانی

نئی دنیا کے ہنگاموں میں‌ ناصر
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

Bikta na tha

بکتا نہ تھا دل حسن کے بازار سے پہلے
بے مول تھا یہ تجھ سے خریدار سے پہلے

عاشق کیلیئے کم تو نہیں اتنی سعادت
ہلکا سا تو اقرار تھا انکار سے پہلے

رشتوں میں خلوص اور مروت کی کمی ہے
احباب دغا دیتے ہیں اغیار سے پہلے

اس عہد میں انصاف ہے کچھ اور طرح کا
مظلوم چڑھے سولی پہ جفا کار سے پہلے

اس شہر میں چارہ گری کون کرے گا
مرتا ہو مسیحا جہاں بیمار سے پہلے

حق گوئی ہے اس جبر مسلسل میں بڑا جرم
سل جائیں گے لب جرات اظہار سے پہلے

اے جان طلب ہم سے گریزاں نہ ہوا کر
ہم شہر کی زینت تھے تیرے پیار سے پہلے

اسباب ارادوں کے ہیں محتاج سفر میں
عزم سفر شرط ہے رفتار سے پہلے

ہم حسن پرستوں میں ہے یہ ریت پرانی
مرتے نہیں ہم یار کے دیدار سے پہلے

ہے دم میں اگر دم تو جنوں خیز ہوں ہر دم
تم مجھ کو مٹاو میرے افکار سے پہلے

شوریدہ سری جن کی رمیض ہوتی ہے فطرت
ملتا ہے کہاں چین انہیں دار سے پہلے

shabab

Sham e gham

Har aik

Hurriat ko

Ranjish

kiyun

Hast apni

Rat bhar

Bichhar gaye

asar usko zara

Main Gunahgar aur

Saans Lena Bhi

Kuch Yaadgar e Shehr e sitam

Koi Jae Toor Pe

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے

وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا

کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا

نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا

مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے

جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے

نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا

ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں

ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر

نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے

ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی

Dil Khoon Ho

دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدہ تر سے

کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو

یوں تو نہ گزر جاو اس اجڑے ہوئے گھر سے

ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حدی خواں

مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے

یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی

اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے

خورشید تو کیا ، غیرت خورشید ہوا ہے

وہ ذرہ جو ابھرا ہے تری راہگزر سے

نکلی نہ جو دیدار کی حسرت تو یہ ہوگا

سر پھوڑ کے مر جائیں گے دیوار سے ، در سے

سو رنج ہیں ، سو شکوہ شکایات ہیں ، لیکن

مجبور ہیں ، کچھ کہتے نہیں آپ کے ڈر سے

صیاد! خدا خیر کرے اہل چمن کی

دیکھے ہیں فضاوں میں کچھ اڑتے ہوئے پَر سے

وہ روٹھ گئے ہم سے ، جدا ان سے ہوئے ہم

اب چھیڑ اٹھے گی نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے

لوگوں کا حسد شعر کی شہرت سے بڑھے گا

خوف آتا ہے خود مجھ کو نصیر اپنے ہنر سے

Woh To Bas

وہ تو بس وعدہء دیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تو نےمگر ہم نہ ٹلے

تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا

جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں

ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا

لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا

نزع کےوقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں

ایسےعالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر

حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا

Yeh Zamana

یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں
اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں


اک تری آرزو سے ہے آباد
ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں


عشق رسم و رواج کیا جانے
یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں


وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں


جلنے والوں کو صرف جلنا ہے
ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں


اے نصیر انتظار کا عالم
اک قیامت ہے اور کچھ بھی نہیں
جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا

وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا

کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا

زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں

کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا

محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے

یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا

پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر

کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا

نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو

مرا سر تیرے سنگ ِدر کے قابل ہو نہیں سکتا

مرا دل اور تم کو بھول جائے ، غیر ممکن ہے

تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا

مرا ایمان ہے اُن پر ، مجھے اُن سے محبت ہے

مرا جذبہ ، مرا ایمان ، باطل ہو نہیں سکتا

نزاکت کے سبب خنجر اُٹھانا بار ہو جس کو

وہ قاتل بن نہیں سکتا، وہ قاتل ہو نہیں سکتا

مرے داغِ تمنّا کا ذرا سا عکس ہے ، شاید

کسی کے عارضِ دلکش پہ یہ تِل ہو نہیں سکتا

نہ ہو وارفتہ جو اُس جانِ خوبی پر دل و جاں سے

وہ عاشق بن نہیں سکتا ، وہ عاشق ہو نہیں سکتا

ہمیں منظور مر جانا ، اگر اُن کا اِشارہ ہو

یہ کام آسان ہو سکتا ہے، مشکل ہو نہیں سکتا

جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی

ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا

نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے

سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا
مری نظر سے مکمل بہار گزری ہے
کہ مُسکراتی ہوئی شکلِ یار گزری ہے

غم و الم کے ، اذیت کے ، کرب زاروں میں

تڑپ تڑپ کے شبِ انتظار گزری ہے

نفس نفس پہ چُبھن تھی قدم قدم پہ خلش

تمام عمر سرِ نوکِ خار گزری ہے

قفس میں حال نہ پوچھا صبا نے آکے کبھی

مرے قریب سے بیگانہ وار گزری ہے

سکونِ دل نہ میسر ہوا زمانے میں

نصیر زیست بڑی بے قرار گزری ہے
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
اُن کی خوشبو ، کہاں سے آتی ہے

حدِ اوہام سے گزر کے کُھلا

خوش یقینی ،گُماں سے آتی ہے

جراتِ بندگیِ ربِ جلیل

بت شکن کی اذاں سے آتی ہے

ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر

دل میں عزمِ جواں سے آتی ہے

اُن کی آواز میرے کانوں میں

آرہی ہے ، جہاں سے آتی ہے

سر کو توفیق سجدہ کرنے کی

یار کے آستاں سے آتی ہے

آدمیت وہاں نہیں ہوتی

کبر کی بُو جہاں سے آتی ہے

وقت کیسا قیامتی ہے آج

دھوپ اب سائباں سے آتی ہے

رات پڑتے ہی کچھ نہیں کُھلتا

یادِ جاناں کہاں سے آتی ہے

آدمی میں جمالیاتی حس

قربتِ مہ وشاں سے آتی ہے

دو قدم چل کے تم نہیں آتے

چاندنی آسماں سے آتی ہے

زندگی میں نصیر ! آسانی

ترکِ سُود و زیاں‌ سے آتی ہے

یاد فن کے اساتذہ کی نصیر

تیرے طرزِ بیاں سے آتی ہے
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو

بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو

قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو

جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکا

بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو

جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رُموز بہت

مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو

قدم قدم پہ رُلایا ہمیں مقدر نے

ہم اُن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو

نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں

سُنا تو دی ہے انہیں داستاں "سُنانے کو"

کہو کہ ہم سے رہیں دور، حضرتِ واعظ

بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو

اب ایک جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے

اداوں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو

شب فراق نہ تم آسکے نہ موت آئی

غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو

نصیر! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی

تُلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اُٹھانے کو
غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار ، سنا ہے کہ نہیں

وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں

جھانک لے سینے میں کم بخت ذرا ، ہے کہ نہیں

مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا

یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں

سامنے آنا ، گزر جانا ، تغافل کرنا

کیا یہ دنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں

اہل دل نے اُسے ڈُھونڈا ، اُسے محسوس کیا

سوچتے ہی رہے کچھ لوگ ، خدا ہے ، کہ نہیں

تم تو ناحق مری باتوں کا برا مان گئے

میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے ، بجا ہے کہ نہیں؟

آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیر

سوچتا ہوں ، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں
ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے
نہ ملیں ، جو ملا نہیں کرتے

چند کلیاں شگفتہ قسمت ہیں

سارے غنچے کھلا نہیں کرتے

جن کو دستِ جنوں نے چاک کیا

وہ گریباں سلا نہیں کرتے

آپ محتاط ہوں زمانے میں

ہر کسی سے ملا نہیں کرتے

جو محبت میں سنگِ میل بنیں

وہ جگہ سے ہلا نہیں کرتے

ناز ہے اُن کو بے وفائی پر

ختم یہ سلسلا نہیں کرتے

رِستے رہتے ہیں بھیگی راتوں میں

زخم دل کے سِلا نہیں کرتے

اُن سے بس اک نصیر شکوہ ہے

ہم سے وہ کیوں ملا نہیں کرتے
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو

میں خود اک قدِ آدم آئنہ ہوں

ترا اپنا سراپا دیکھنے کو

کہاں ساحل پہ موجوں کا تبسم

اُنہیں آتا ہے دریا دیکھنے کو

نکل آئے فلک پر چاند سُورج

ترا نقشِ کفِ پا دیکھنے کو

دمِ آخر کروں گا راز اِفشا

مجھے آپ آئیں تنہا دیکھنے کو

تجھے دیکھے نہ کیوں سارا زمانہ

کہاں ملتا ہے تجھ سا دیکھنے کو

مجھے اٹھ اٹھ کے سب محفل نے دیکھا

وہی ظالم نہ اٹھا دیکھنے کو

حریمِ ناز سے باہر وہ آئیں

کھڑی ہے ایک دنیا دیکھنے کو

ترا ثانی سنا ہم نے ، نہ دیکھا

زمانہ ہم نے دیکھا ، دیکھنے کو

بس اس کے بعد تو راہِ عدم ہے

یہی باقی ہے رَستا دیکھنے کو

اِدھر دَم دے دیا بیمارِ غم نے

اُدھر آیا مسیحا دیکھنے کو

نصیر! اُن کی گلی میں کیوں گئے تھے

یہی ، اپنا تماشا دیکھنے کو؟
نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی

فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا

یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا

مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو

قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا ، نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا

بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار

نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار

نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ بایزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی

نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاوہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی

نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست

فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ

نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن

انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا

الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے

کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!

کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش

وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر

یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے

یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز

کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے

کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل

لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ

تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں

تیری نگاہ سے پتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے

گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے
تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے

کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن

مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں

تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے

نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک

ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا

مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے

کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم
سوئے گلشن وہ تیرا گھر سے خراماں ہونا
سرو کا جھومنا ، غنچوں کا غزلخواں ہونا

خوبرو گرچہ ہوئے اور بھی لاکھوں‌ لیکن

تجھ سے مخصوص رہا خسرو خوباں ہونا

زندگی بھر کی تمناوں‌ کا ٹھہرا حاصل

سامنے تیرے میرا خاک میں ‌پنہاں ہونا

یہ تو اندر کا میرے درد ہے ، دکھ ہے ، غم ہے

میرے رونے پہ کہیں تم نہ پریشاں ہونا

واعظِ شہر کی تقدیر میں یارب جنت

میری قسمت میں ہو خاکِ درِ جاناں ہونا

گھر میں وہ آئے نہیں پاس کچھ اشکوں کے سوا

آج محسوس ہوا بے سرو ساماں ہونا

خاک سے ہو کے میرا خاک میں‌ جانا مر کر

اپنے ہی گھر میں ہو جیسے میرا مہماں ہونا

تم نے دریا ہی کو دیکھا ہے اٹھاتے طوفاں

آج دیکھو کسی قطرے کا بھی طوفاں ہونا

جب لحد میں مجھے رکھیں تو خدا را تم بھی

جلوہ فرما بہ سرِ گورِ غریباں‌ ہونا

جتنا مشکل ہے کسی اور کو کرنا تسلیم

اتنا مشکل نہیں کافر کا مسلماں‌ ہونا

دے جو شاہی تجھے آواز تو مت بھول
نصیر
اس سے بہتر ہے گدائے شہ جیلاں ہونا

راہِ دشوار کو آسان بنا کر چلیے شوق منزل ہے ، تو پھر ہوش میں آ کر چلیے ہجر کی راہ میں یہ فرض ادا کر چلیے اپنی پلکوں پہ چراغوں کو سجا کر چلیے روشنی ہو تو چمک اٹھتی ہے ہر راہِ سیاہ دو قدم چلیے ، مگر شمع جلا کر چلیے خار ہی خار زمانے میں نظر آتے ہیں اپنے دامن کو برائی سے بچا کر چلیے آپ کی سست روی آپ کو لے ڈوبے گی دور منزل ہے، ذرا پاوں اٹھا کر چلیے بندشیں توڑتے چلیے ، کہ سفر آساں ہو سامنے آئے جو دیوار ، گرا کر چلیے غم کے ماروں کا تو اللہ نگہباں ہے مگر اب جو آپ آہی گئے ہیں ، تو دعا کر چلیے جادہ شوق میں لغزش سے ہے بچنا لازم دل مچلتا ہو ، مگر پاوں جما کر چلیے دشمن و دوست کی پہچان ضروری ہے نصیر ایسوں ویسوں سے ذرا خود کو بچا کر چلیے

راہِ دشوار کو آسان بنا کر چلیے
شوق منزل ہے ، تو پھر ہوش میں آ کر چلیے

ہجر کی راہ میں یہ فرض ادا کر چلیے

اپنی پلکوں پہ چراغوں کو سجا کر چلیے

روشنی ہو تو چمک اٹھتی ہے ہر راہِ سیاہ

دو قدم چلیے ، مگر شمع جلا کر چلیے

خار ہی خار زمانے میں نظر آتے ہیں

اپنے دامن کو برائی سے بچا کر چلیے

آپ کی سست روی آپ کو لے ڈوبے گی

دور منزل ہے، ذرا پاوں اٹھا کر چلیے

بندشیں توڑتے چلیے ، کہ سفر آساں ہو

سامنے آئے جو دیوار ، گرا کر چلیے

غم کے ماروں کا تو اللہ نگہباں ہے مگر

اب جو آپ آہی گئے ہیں ، تو دعا کر چلیے

جادہ شوق میں لغزش سے ہے بچنا لازم

دل مچلتا ہو ، مگر پاوں جما کر چلیے

دشمن و دوست کی پہچان ضروری ہے
نصیر
ایسوں ویسوں سے ذرا خود کو بچا کر چلیے
جو وہ نہ رہا تو وہ بات گئی ، جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ اُمنگ کہاں‌، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا

شب و روز کہیں‌بھی الگ نہ ہوا ، شب و روز کہاں‌ وہ ملا نہ رہا
رگ جاں‌ سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا

کسی شکل میں‌بھی کسی رنگ میں‌بھی کسی روپ میں‌بھی کسی ڈھنگ میں‌بھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا

تھی خزاں‌کے لباس میں‌کس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخ‌پہ تازہ کلی نہ رہی ، کوئی پتہ چمن میں‌ہرا نہ رہا

تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال میرا ہے قدم بہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی ، وہ جلن نہ رہی ، غم و درد میں‌اب وہ مزا نہ رہا

بہے اشک وفور ملال سے جب ، کھلے راز تمام ، ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی ، کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا

دم دید ہزار حواس گئے ، رہے دور ہی دور کہ پاس رہے
ہمیں‌دیکھنا تھا انہیں‌دیکھ لیا ، کوئی بیچ میں‌ پردہ رہا نہ رہا

مرے دم سے تھے نقش و نگار جنوں‌، مرے بعد کہاں وہ بہار جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا یہ ہو تری، کوئی دشت میں‌آبلہ پا نہ رہا

مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی ، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کُھلا ، وہ ذرا نہ کِھلا ، وہ ذرا نہ تھما ، وہ ذرا نہ رہا

کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم ، رہا دونوں‌جہان میں‌اس کا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا ، کہیں‌اس کا بھرم بخدا نہ رہا

جو نصیر ہم ان کے قریب ہوئے ، تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غمِ‌ہجر میں‌اور ہی کچھ تھی خلش، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا
پروفيسر ہي جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج ميں
تو اونچا کيوں نہ ہو تعليم کا معيار کالج ميں
کچھ ايسے بھي پڑھا کو پنچھيوں کو ہم نے ديکھا ہے
کہ ‘ پر‘ دفتر ميں ‘پنجے‘ شہر ميں ‘منقار‘ کالج ميں
اگر چہ دوسرے مشروب بھي مہنگے نہيں ملتے
مگر چلتا ہے اکثر شربت ديدار کالج میں
وہ ڈگري کي بجائے ميم لے کر لوٹ آيا ہے
ملا تھا داخلہ جس کو سمندر پار کالج ميں
مجھے ڈر ہے کہ ہم دونوں کہيں سمدھي نہ بن جائيں
تري گلنار کالج ميں ميرا گلزار کالج ميں

Jab Rat ki nagan

جب رات کی ناگن ڈستی ہے
نس نس میں زہر اترتا ہے
جب چاند کی کرنیں تیزی سے
اس دل کو چیر کے آتی ہیں
جب آنکھ کے اندر ہی آنسو
زنجیروں میں بندھ جاتے ہیں
سب جذبوں پر چھا جاتے ہیں 
تب یاد بہت تم آتے ہو

جب درد کی جھانجر بجتی ہے
جب رقص غموں کا ہوتا ہے
خوابوں کی تال پہ سارے دکھ
وحشت کے ساز بجاتے ہیں
گاتے ہہں خواہش کی لے میں
مستی میں جھومتے جاتے ہیں
سب جذبوں پر چھا جاتے ہیں
تب یاد بہت تم آتے ہو
تب یاد بہت تم آتے ہو
 
ستمبر کے مہینے کا شاید وہ آخری دن تھا
برس گزرے کئی
میں نے محبت لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
اچانک یاد آیا ھے
برس گزرے کئی
مجھ کو کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جان جاں " مجھے تم سے محبت ھے"
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ھے دھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دوبارہ چاہ کر بھی میں محبت کر نہیں پایا

Aa thehri barsat

آٹہری برسات تو پلکیں بھیگ گئیں
روئےجب بھی رات تو پلکیں بھیگ گئیں

آنکھوں کو، جب گہری کالی برکھا کی
سونپ گیا سوغات تو پلکیں بھیگ گئیں

اپنے بھی جب چھوڑ کے واپس پلٹے تھے
تھاما اس نے ہاتھ تو پلکیں بھیگ گئیں

یوں تو ہر نقصان پہ حاوی ضبط رہا
بکھر گئی جب ذات تو پلکیں بھیگ گئیں

پہلے تو آنکھوں میں حیرت ٹہری تھی
سمجھ میں آئی بات تو پلکیں بھیگ گئیں

بات بچھڑنے پر ہی ختم نہیں ہوتی
چلا جو کوئی ساتھ تو پلکیں بھیگ گئیں

ہر الزام کو سہنے کا کچھ عہد تو تھا
اور چھڑی جب بات تو پلکیں بھیگ گئیں

Suna hai Janglon

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
 
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
 
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
 
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
 
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
 
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر

کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے

سنا ہے گھونسلے سےجب کوئی بچہ گرے تو
 
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
 
ندی میں باڑ آجائے 

کوئی پل ٹوٹ جائے تو
 
کسی لکڑی کے تختے پر
 
گلہری سانپ چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
 
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہے
 
خداوندا جلیل و معتبر، دانا و بینا منصف اکبر
 
ہمارے شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر

Kaha Har rasta


کہا ہر راستہ بخشا ہے کیوں نا ہموار مجھے
جواب آیا تجھے ہر راستہ ہموار کرنا ہے

کہا کیا تیغ اٹھانی ہے غنیموں نے غنیموں پر
جواب آیا کہ یاروں نے بھی چھپ کر وار کرنا ہے

کہا کیوں سامنے چمکا دیا اتنا بڑا سورج
جواب آیا ہمیں سایا پس دیوار کرنا ہے

کہا مجھ کو بنایا ہے تو پھر دوسرے کیوں
جواب آیا کہ تجھ کو دوسروں سے پیار کرنا ہے

کہا میں لاڈلا تیرا ہوں مٹی میں کیوں اتروں
جواب آیا کہ سب کو یہ سمندر پار کرنا ہے

Yeh zindagi bala hai

 یہ زندگی بلا ہے

ہر شخص چیختا ہے

برسے لہو فلک سے

دھرتی کو کیا ہوا ہے

یہ دیس گلشنوں کا

پتھر سا بن رہا ہے

جو خون بیچتا تھا

 وہ شخص مر گیا ہے

کیا چیز ڈھونڈتا ہوں

کچھ میرا کھو گیا ہے

اتنے خاموش کیوں ہو؟

کاغذ پہ کیا لکھا ہے

اب جشن ہو رہے ہیں

انسان مر رہا ہے

اپنا تو گھرحسن اب

چڑیوں کا گھونسلہ ہے

Roz ik naya

روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں

شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے
ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں

بھائیوں کے جمگھٹ میں بے ردا ہوئیں بہنیں
اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں
اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

سُونی سُونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں
جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان کھیتوں میں دوپہر میں جلتے ہیں
لوٹتے ہیں سگ زادے کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس زرا سی دوری ہے
ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے اُن کے دامنوں سے بھی
زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں میں

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی
رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا
شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں

ایک بے گناہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے
بٹ گیا ہے اک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہوکر اپنا وزن کھو بیٹھا
آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چنتا ہے
گھر گیا تھا بےچارہ کتنے رہنماؤں میں

Kam Sab

Shab e Wasal thi

Salam Machhlishehri