Saturday, September 25, 2010

Bikta na tha

بکتا نہ تھا دل حسن کے بازار سے پہلے
بے مول تھا یہ تجھ سے خریدار سے پہلے

عاشق کیلیئے کم تو نہیں اتنی سعادت
ہلکا سا تو اقرار تھا انکار سے پہلے

رشتوں میں خلوص اور مروت کی کمی ہے
احباب دغا دیتے ہیں اغیار سے پہلے

اس عہد میں انصاف ہے کچھ اور طرح کا
مظلوم چڑھے سولی پہ جفا کار سے پہلے

اس شہر میں چارہ گری کون کرے گا
مرتا ہو مسیحا جہاں بیمار سے پہلے

حق گوئی ہے اس جبر مسلسل میں بڑا جرم
سل جائیں گے لب جرات اظہار سے پہلے

اے جان طلب ہم سے گریزاں نہ ہوا کر
ہم شہر کی زینت تھے تیرے پیار سے پہلے

اسباب ارادوں کے ہیں محتاج سفر میں
عزم سفر شرط ہے رفتار سے پہلے

ہم حسن پرستوں میں ہے یہ ریت پرانی
مرتے نہیں ہم یار کے دیدار سے پہلے

ہے دم میں اگر دم تو جنوں خیز ہوں ہر دم
تم مجھ کو مٹاو میرے افکار سے پہلے

شوریدہ سری جن کی رمیض ہوتی ہے فطرت
ملتا ہے کہاں چین انہیں دار سے پہلے

No comments:

Post a Comment