Saturday, September 25, 2010

ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے
نہ ملیں ، جو ملا نہیں کرتے

چند کلیاں شگفتہ قسمت ہیں

سارے غنچے کھلا نہیں کرتے

جن کو دستِ جنوں نے چاک کیا

وہ گریباں سلا نہیں کرتے

آپ محتاط ہوں زمانے میں

ہر کسی سے ملا نہیں کرتے

جو محبت میں سنگِ میل بنیں

وہ جگہ سے ہلا نہیں کرتے

ناز ہے اُن کو بے وفائی پر

ختم یہ سلسلا نہیں کرتے

رِستے رہتے ہیں بھیگی راتوں میں

زخم دل کے سِلا نہیں کرتے

اُن سے بس اک نصیر شکوہ ہے

ہم سے وہ کیوں ملا نہیں کرتے

No comments:

Post a Comment