Saturday, September 25, 2010

Yeh zindagi bala hai

 یہ زندگی بلا ہے

ہر شخص چیختا ہے

برسے لہو فلک سے

دھرتی کو کیا ہوا ہے

یہ دیس گلشنوں کا

پتھر سا بن رہا ہے

جو خون بیچتا تھا

 وہ شخص مر گیا ہے

کیا چیز ڈھونڈتا ہوں

کچھ میرا کھو گیا ہے

اتنے خاموش کیوں ہو؟

کاغذ پہ کیا لکھا ہے

اب جشن ہو رہے ہیں

انسان مر رہا ہے

اپنا تو گھرحسن اب

چڑیوں کا گھونسلہ ہے

No comments:

Post a Comment