Saturday, September 25, 2010

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو

بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو

قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو

جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکا

بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو

جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رُموز بہت

مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو

قدم قدم پہ رُلایا ہمیں مقدر نے

ہم اُن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو

نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں

سُنا تو دی ہے انہیں داستاں "سُنانے کو"

کہو کہ ہم سے رہیں دور، حضرتِ واعظ

بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو

اب ایک جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے

اداوں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو

شب فراق نہ تم آسکے نہ موت آئی

غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو

نصیر! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی

تُلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اُٹھانے کو

No comments:

Post a Comment