Saturday, September 25, 2010

غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار ، سنا ہے کہ نہیں

وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں

جھانک لے سینے میں کم بخت ذرا ، ہے کہ نہیں

مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا

یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں

سامنے آنا ، گزر جانا ، تغافل کرنا

کیا یہ دنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں

اہل دل نے اُسے ڈُھونڈا ، اُسے محسوس کیا

سوچتے ہی رہے کچھ لوگ ، خدا ہے ، کہ نہیں

تم تو ناحق مری باتوں کا برا مان گئے

میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے ، بجا ہے کہ نہیں؟

آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیر

سوچتا ہوں ، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں

No comments:

Post a Comment