Saturday, September 25, 2010

بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو

میں خود اک قدِ آدم آئنہ ہوں

ترا اپنا سراپا دیکھنے کو

کہاں ساحل پہ موجوں کا تبسم

اُنہیں آتا ہے دریا دیکھنے کو

نکل آئے فلک پر چاند سُورج

ترا نقشِ کفِ پا دیکھنے کو

دمِ آخر کروں گا راز اِفشا

مجھے آپ آئیں تنہا دیکھنے کو

تجھے دیکھے نہ کیوں سارا زمانہ

کہاں ملتا ہے تجھ سا دیکھنے کو

مجھے اٹھ اٹھ کے سب محفل نے دیکھا

وہی ظالم نہ اٹھا دیکھنے کو

حریمِ ناز سے باہر وہ آئیں

کھڑی ہے ایک دنیا دیکھنے کو

ترا ثانی سنا ہم نے ، نہ دیکھا

زمانہ ہم نے دیکھا ، دیکھنے کو

بس اس کے بعد تو راہِ عدم ہے

یہی باقی ہے رَستا دیکھنے کو

اِدھر دَم دے دیا بیمارِ غم نے

اُدھر آیا مسیحا دیکھنے کو

نصیر! اُن کی گلی میں کیوں گئے تھے

یہی ، اپنا تماشا دیکھنے کو؟

No comments:

Post a Comment